اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن)سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ کے دو ججز کی جانب سے نا اہلی کا سرٹیفیکیٹ مل گیاہے،وہ اس قابل نہیں رہے کہ ممبر اسمبلی رہ سکیں،معاملہ جے آئی ٹی کے حوالے کرنے کا مقصد ہے کہ مکمل تحقیقات کی جائیں لیکن وزیر اعظم کے ہوتے ہوئے یہ کام کیسے کرے گی۔
نجی ٹی وی اے آر وائے نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے چوہدری افتخار کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی میں ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کے لیول کاافسر ہو گاجبکہ چیئرمین نیب پر عدالت کو اعتبار نہیں۔ نواز شریف اب تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی کے سامنے بطور ملزم کھڑے ہوں گے ،جہاں اجمل پہاڑی اور کامران مدھوری جیسے ملزم پیش ہوتے ہیں، انہیں اسی بات پر استعفی دے دینا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے آج ثابت کردیا کہ وزیر اعظم بھی قانون سے بالاتر نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے اپنی اوبزرویشن میں لکھا ہے کہ نواز شریف نے مل لگانے کے لئے بینکنگ ٹرانزیکشن کا نہیں بتایا اور نہ ہی یہ بتایا کہ پیسے کہاں سے آئے۔
سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے میں اہم یہ ہے کہ ہر جج نے اپنا الگ الگ نوٹ لکھا،پانچوں ججز نے ثابت کردیا کہ وزیر اعظم ایماندار نہیں، دو ججز کی جانب سے نواز شریف کے خلاف اہم فیصلہ آیا ہے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ میاں شریف صاحب کے معاہدے کی فراہم کردہ کاپی بوگس ہے جبکہ فیصلے میں حسین نواز کے انٹر ویو کو متنازع قرار دیااورقطری خط کی مذمت بھی کی۔
سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے میں اہم یہ ہے کہ ہر جج نے اپنا الگ الگ نوٹ لکھا،پانچوں ججز نے ثابت کردیا کہ وزیر اعظم ایماندار نہیں، دو ججز کی جانب سے نواز شریف کے خلاف اہم فیصلہ آیا ہے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ میاں شریف صاحب کے معاہدے کی فراہم کردہ کاپی بوگس ہے جبکہ فیصلے میں حسین نواز کے انٹر ویو کو متنازع قرار دیااورقطری خط کی مذمت بھی کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ وزیر اعظم نے لندن کی جائیدادیں کیسے لیں ، باتوں میں ابہام ہے جبکہ انہوں نے اپنی تقریر میں قطری خط کا زکر تو کیا ہی نہیں تھا،آپ نے قوم سے جھوٹ بولا اورغلط بیانی کی۔چوہدری افتخار کا کہنا تھا کہ فیصلے کے بعد حکمران جماعت مٹھائی کس بات کی بانٹ رہی ہے؟فیصلے کا ایک ایک لفظ پڑھا جائے گا۔
Credit: dailypakistan
No comments:
Post a Comment